![]() |
مزدور کسی بھی ملک کی معیشت کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ سرمایہ دار ہو، تاجر ہو یاآجر، تعمیرات کا کام ہو یا زراعت کا، پیداوار کے ساتھ مزدور کا ہمیشہ براہِ راست تعلق ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اوّل تو مزدور اپنی اہمیت سے آگاہ نہیں اور اگر ہے بھی تو سرمایہ دار اسے اس کا جائز مقام دینے کو تیار نہیں،اکثر معاشروں میں مزدور کم پڑھے لکھے یا اَن پڑھ ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ سرمایہ داروں کی شاطرانہ چالوں کو سمجھے بغیر مسلسل نقصان اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس کے بر عکس سرمایہ دار اپنے مفادات کے لیے آخری حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ کم سے کم تنخواہ دینا، رہائش سمیت دیگر مراعات کے حوالے سے تیسرے درجے کے سہولیات دینا،یہی مزدور کا نصیب ٹھہرتا ہے۔ حالانکہ یہ نا انصافی انسانوں کی پیدا کردہ ہے۔ نصیب کا کیا دخل۔
تیسری دنیا کے ممالک میں مزدور وںکی زبوں حالی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ امریکہ اور یورپ میں حالات بدل چکے ہیں۔ یہ حالات یونہی نہیں بدلے۔ اس کے پیچھے مزدوروں کی قربانیاں ہیں۔ جانوں کے نذرانے ہیں۔ بذاتہ یکم مئی کا دن بھی انہی عظیم جان کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جو مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے دی تھیں۔ آج اٹلی، فرانس اور انگلینڈ میں مزدور کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اوران ممالک میں اب وہ تیسرے درجے کے شہری ہر گز نہیں۔
حدیث مبارکہ ہے کہ '' محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے''۔
کسی بھی نقطہ ء نظر سے مزدور ہونا کسرِ شان نہیں۔ سرمایہ دارانہ سوچ سے ہٹ کر دیکھیں تو یہ لوگ ہر لحاظ سے قابل ِ احترام ہیں۔ اوّل اس لیے کہ یہ کام کرتے ہیں اور باقی سارا معاشرہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ دوم اس لیے کہ ہمارے پیارے نبی ۖنے خود اپنے ہاتھوں سے کام کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی۔ کتنے ہی انبیاء صلعم ہیں جو محنت مزدوری کر کے اپنے اہلِ خانہ کے لیے کماتے رہے۔ یہ کام تو بہت عظمت کا ہے مگر اکثر لوگ جانتے اور مانتے نہیں۔
اورنگ عالمگیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بادشاہ ہوتے ہوئے بھی ٹوپیاں بنا کے بیچا کرتے تھے۔ آج بھی کچھ اللہ کے بندے ایسے ضرور ہیں جو حق حلال کی روزی کمانے کے لیے اپنا پسینہ بہاتے ہیں اور اس پر ناز بھی کرتے ہیں۔ اگر قوم کے سب افراد اسی طرح سوچیں تو بلاشبہ معاشرہ بہت آگے نکل سکتا ہے۔ ہمیں اپنی سوچ و فکر،اپنی قدریں بدلناہوں گی۔ کھوکھلے نعروں اور باتوں کی بجائے کام کرنا ہو گا۔ مزدور وںکو ان کے حقوق دینا ہوں گے ۔
سازش سے نہیں اس کو ابھرنے دیا جاتا
مزدور تو ہے تہذیب کے ماتھے کا جھومر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مبصر ڈاٹ کام ۔۔۔ کا کسی بھی خبر سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ علاوہ ازیں آپ بھی اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر info@mubassir.com پر ای میل کر سکتے ہیں۔ ادارہ