Tuesday, 15 October, 2024
عالمی یوم القدس

عالمی یوم القدس
تحریر: عرفان حسین

 

 گذشتہ کئی عشروں سے صہیونی ریاست کے قبضے میں انبیاءکی سرزمین نہ صرف سرزمین فلسطین بلکہ مسلمانوں کے قبلہ اول بھی عالمی سازش کے تحت قبضے میں ہے۔ 

مسئلہ فلسطین مسلمانوں کا اساسی اور بنیادی مسئلہ ہے جس نے دنیا میں بسنےوالے ہر مسلمان کو بے چین کر کے رکھا ہوا ہے۔ برطانیہ اور اس کے ہمنواؤں نے یورپ کے مختلف علاقوں سے متعصب اور ظالم یہودیوں کو فلسطین کی زمین پر بسایا گیا ان ظالم اور خون خار درندوں نے جیسے ہی اس سرزمین مقدس پر اپنے ناپاک قدم رکھے تووہاں کے مقامی باشندوں کو آہستہ آہستہ کنارے لگانا شروع کیا اور ظلم و ستم کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے اورتھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ فلسطینی مقامی افراد کو چن چن کر قتل کیا گیا اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے ساری دنیا اور انسانی حقوق کے اداروں اور تنظیموں نے مسلسل خاموشی اختیار کررکھی ہے۔

غاصب صہیونی ریاست کے ناجائز قیام سے لے کر اب تک اگر اس ظالم ریاست کے ظلم و تشدد اور مظلوم فلسطینیوں پر روا رکھے جانے والے انسانیت سوز اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس غاصب اور ظالم ریاست نے جو کچھ کیا ہے اکیلے نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے مغرب اور امریکا کی بھرپور حمایت اور مدد شامل رہی۔ عالمی اداروں میں کئی دفعہ فلسطینی مظلوموں کے حق میں قراردادیںلائی گئیں لیکن ان قراردادوں کو منظور نہیں ہونے دیا گیا ہے اور ان ظالموں کی ملی بھگت کی وجہ سے کوئی قرارداد قابل عمل نہیں بن سکی ہے۔ اگر اس مسئلے کے ماضی اور حال اور مستقبل کو دقت سے دیکھا جائے تو یہ مسئلہ پوری دنیا میں ناجائز اور قابض قوتوںکی طرف اور ان سے آزادی کی نوید اپنے اندر سمائے ہوئے ہے وہ مسئلہ فلسطین یا کہ پھرکشمیر کا مسئلہ۔ کوئی مسئلہ بھی حل، اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کو زندہ رکھا جائے جب کوئی مسئلہ زندہ ہی نہیں رہتا تو اس کا حل بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔ مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے اور اس کے حل کے لیے امام خمینی نے جو ضابطہ معین کیا آہستہ آہستہ آج وہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اور عالمی یوم القدس کے نام سے دنیا کے تمام مسلمانوں کے دل و روح میں آزادی قدس تک اپنی زندگی کو یقینی بنا چکا ہے اور کوئی بھی طاقت اس کو عدالت پسند افراد کے دل و دماغ سے ختم نہیں کر سکتی۔ اور جب عالمی یوم القدس کے لیے مسلمان مستضعفین کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں تو وہ صرف مسئلہ فلسطین کے لیے  نہیںبلکہ اس سے پوری دنیا میں موجود ظالم اور مستکبرین کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں پوری دنیا تک یہ گونجتی آوازیں ظالم اور غاصبین کی نیند اڑا کر رکھ دیتی ہیں۔طاقت کے نشے میں مست ظالموں تک یہ پیغام جاتا ہے کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں اور جس طرح انھوں نے ظلم کا بازار گرم کررکھا ہے وہ زیادہ دیر رہنے والا نہیں  اسی حقیقت کو شاعر نے یوں قلم بند کیاہے

  ظلم پھر ظلم ہے ‘بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے ‘ٹپکے گا تو جم جائے گا 

یوم القدس کیوں منایا جاتا ہے؟ہم یہاں پر عرض کیے دیتے ہیںکہ ہمارے مذہبی اجتماعات صرف عبادت کا ہی مجموعہ نہیں ہوتے بلکہ عصر حاضر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کو بھی ان اجتماعات میں اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس امر میں کلام نہیں کہ پورے عالم اسلام میں حرکت پیدا کرنے کے لئے جمعۃ الوداع اہم ترین اور مناسب ترین دن ہے

 تاریخ شاہد ہے اور مفکرین اسلام کا اس بات پر کلی اتفاق ہے کہ یہ اجتماعات اسلام کی سیاسی روح سے جدا نہیں ہیں۔ اسلام عبادت و سیاست کو جدا نہیں سمجھتا۔ ہماری تو سیاست بھی عین عبادت ہے، اگر الٰہی اصولوں پر کی جائے تو۔

یہ امر بھی واقعی ہے کہ یوم القدس کی ایک اہمیت اور بھی ہے اور وہ ہے اتحاد بین المسلمین، اگرچہ مٹھی بھر تکفیری فلسطین کاز سے اس لئے نالاں ہیں کہ اسے عالمی سطح پر ایرانی لیڈر اما م خمینی ؒ نے اجاگر کیا۔ متعصب اذہان سے اس کے علاوہ کیا امید کی جا سکتی ہے؟ البتہ شیعہ سنی اور دنیا کے تمام عدل پسند یوم القدس کو بھرپور طریقے سے منا کر عالمی استعمار اور ظلم سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ 

 ملک خدامیں موجود وہ تمام عناصر جو تفرقہ بازی، شدت پسندی اور دہشت گردی کے ہامی ہیں ان کو ہر یوم القدس پر ناکامی سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور پاکستان میں اتحاد وحدت کے لیے شب وروز کام کرنے والے افراد کی ہمت میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے وہ مناظر جو پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں  میں مختلف مذہبی، سیاسی اورسماجی جماعتوں کےریلیوں کی صورت میں نظر آتے ہیں ان کے مثبت اثرات بہت دیر تک باقی رہنے والے ہوتے ہیں اور حوصلہ شکن ہوتے ہیں ان تمام عناصرکے لیے جو تفرقہ بازی، شدت پسندی اور دہشت گردی میں پیش پیش رہتے ہیں اور شعائر اسلامی کا مذاق اڑاتے ہیں، انھیں بے شک قبلہ اول کی آزادی کی پرواہ نہیں۔ مگر عالم اسلام کے درد مند افراد یوم القدس کو گھروں میں نہیں بیٹھ سکتے، نہ صرف اس مخصوص دن کو بلکہ ان کا ہر لمحہ مستضعفین اور مظلومین کی حمایت میں صرف ہوتا ہے۔ آج عالم اسلام کو اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کا دست و بازو بن کر استعمار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قدس کی آزادی کی بات کریں اور دنیا بھر کے عدل پسندوں کو اسرائیل بھارت اور ان کے حامیوں کے مظالم سے باخبر کریں۔ بے شک اسرائیل اوردیگر ظالم اور قابض صہیونی ریاستوں کا مقدر نابودی ہے۔ ظلم کی اندھیری رات عدل کے سورج کی روشن کرنوں سے شکست کھا جائے گی۔ فلسطین اور کشمیرکی آزادی مقدر ہوچکی ہے۔اور دنیا کا ہر مظلوم خواہ وہ فلسطین میںہو یا کشمیر میں بھارتی مظالم کی چکی میں پِش رہا ہو وہ عراق یمن یا کسی بھی جگہ مظلومیت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکا ہو ۔ایک دن آزادی کا ابھرتا ہوا سورج ضرور دیکھے گا ۔اور وہ دن دور نہیں کہ امت مسلمہ کا ہر مظلوم آزادی اور خود مختاری اور ظلم و جبر کی زندگی سے آزاد ہو کر زندگی گزارے گا ۔ انشاء اللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مبصر ڈاٹ کام ۔۔۔ کا کالم نگار، بلاگر یا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے کالم / مضمون یا اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر اور مختصر تعارف کے ساتھ info@mubassir.com پر ای میل کریں۔ ادارہ

اپنا تبصرہ دینے کے لیے نیچے فارم پر کریں
   
نام
ای میل
تبصرہ
  8719
کوڈ
 
   
متعلقہ خبریں
عمیر پرویز خان سلجوق یونیورسٹی قونیہ ترکی میں بین الاقوامی تعلقات کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں وزیٹنگ لیکچرار کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں۔
آن لائن ایجوکیشن سسٹم تقریباً پوری دنیا میں رائج ہے ۔پاکستان میں بھی دو بڑی یونیورسٹیاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اورورچوئل یونیورسٹی اس وقت ہزاروں اسٹوڈنٹ کو آن لائن ایجوکیشن فراہم کر رہی ہیں۔
صدی کی ڈیل (deal of century) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے مسئلہ فلسطین کا پیش کیا جانے والا نام نہاد حل ہے ۔اس منصوبہ کے تحت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک نئی حد بندی کی جائے گی ۔جس کے نتیجے میں ایک جدید فلسطین تشکیل دیا جائے گا ۔اگر اس صدی کی ڈیل کے بعد کے فلسطین کو دیکھا جائے تو مکمل طور پہ تبدیل ہو جائے گا۔
سعودی عرب کے ایک ایم بی سی چینل پر رمضان کے شروع میں ایک ڈرامہ "ام ہارون" کے نام سے نشر کیا جا رہا ہے، جس میں یہودیت کو مظلوم بنا کر پیش کیا گیا ہے۔

مقبول ترین
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حسن نصر اللہ کا قتل اسرائیل کی بزدلانہ دہشت گردی ہے جس کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حسن نصر اللہ کی پوری زندگی اسرائیل کے خلاف بھر پور جدوجہد سے عبارت ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے جمعہ کے روز اسرائیلی فضائی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کی خبروں کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں سے متحد ہونے اور ’لبنان کے عوام اور حزب اللہ
احتجاج کے لیے آنے والے پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں، جس سے علاقہ میدان جنگ بن گیا۔ میڈیا کے مطابق پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے راولپنڈی میں کمیٹی چوک پر لگے کنٹینرز ہٹا دیے گئے
عالمی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے ایک روز قبل لبنان کے شہر بیروت میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ لبنانی حریت پسند تحریک حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ شہید ہوگئے۔

پاکستان
 
آر ایس ایس
ہمارے پارٹنر
ضرور پڑھیں
ریڈرز سروس
شعر و ادب
مقامی خبریں
آڈیو
شہر شہر کی خبریں