واقعہ کربلا میں اس قدر ہدایت‘ جاذبیت اور رہنمائی ہے کہ وہ ہر دور کے ہر انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس واقعہ کے پس منظر میں نواسہ رسول اکرم ‘ محسن انسانیت حضرت امام حسین ؑ کی جدوجہد‘ آفاقی اصول اور پختہ نظریات شامل ہیں۔ آپ نے واقعہ کربلا سے قبل 28 رجب 60 ھ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے حج کے احرام کو عمرے میں تبدیل کرکے کربلا کے سفر کے دوران 61 ھ کی عصر عاشور تک اپنے قیام کے اغراض و مقاصد کے بارے واشگاف انداز سے اظہار کیا اور دنیا کی تمام غلط فہمیوں کو دور کردیا اور واضح فرمایا کہ موت کے یقینی ہونے کے باوجود بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔
امام عالی مقام ؑ کے قیام کے مقاصد و محرکات ان کے خطبات‘ مکتوبات اور وصایا کی روشنی میں بالکل واضح اور عیاں ہیں بلکہ حسین ابن علی ؑ کے کلام کے ذریعہ ان کی شخصیت‘ ثابت قدمی‘ اعلیٰ نسبی ‘ شجاعت اور معنویت بھی آشکار ہوتی ہے۔
مدینہ کے گورنر سے خطاب:
سن ساٹھ ہجری کے ماہ رجب کے تقریبا نصف میں جب یزید تخت خلافت پر بیٹھا تو حکومت سنبھالتے ہی اس نے مختلف علاقوں میں تعینات اپنے گورنروں کو خطوط ارسال کئے اور ان خطوط کے ذریعے انہیں اپنے باپ کی موت اور جانشینی سے مطلع کیا۔ مذکورہ خطوط میں ایک تو ان سب گورنروں کو عہدوں پر باقی رکھنے کی اطلاع دی اور دوسرا انہیں حکم دیا کہ وہ لوگوں سے اس کے لئے بیعت لیں۔
چنانچہ ولیدنے امام عالی مقام سے بیعت کا تقاضا کیاجس پر امامؑ نے فرمایا ”ہم خاندان نبوت اور معدن رسالت ہیں‘ ہمارے گھروں پر فرشتوں کی رفت و آمد رہا کرتی ہے ۔ اللہ تعالی نے اسلام کو ہمارے گھرانے سے شروع کیا اور آخر تک ہمیشہ ہمارا گھرانہ اسلام کے ہمراہ رہے گا لیکن یزید جس کی بیعت کی تم مجھ سے توقع کررہے ہو اس کا کردار یہ ہے کہ وہ شراب خور ہے‘ بے گناہ افراد کا قاتل اور برسرعام فسق و فجور کا مرتکب ہوتا ہے’مجھ جیسا اُس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتاہم اور تم دونوں آنے والے وقت کا انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہم میں کون خلافت اور بیعت کا زیادہ مستحق ہے“۔
اما حسین کا وصیت نامہ :
امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے مکہ کی جانب روانگی کے وقت یہ وصیت نامہ تحریر فرمایا اور اپنی مہر لگانے کے بعد اپنے بھائی محمد حنفیہ کے سپرد کردیا ۔ ” یہ حسین ابن علی ؑ کی وصیت ہے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام۔ حسین ؑ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں جو اس کی طرف سے دین حق لے کر آئے ہیں‘ اور حسین ؑ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ جنت اور دوزخ حق ہیں اور روز جزا کے آنے میں کوئی شک نہیں اور اس روز یقینا اللہ تمام اہل قبور کو زندہ کرے گا۔“اپنے اس وصیت نامے میں امام ؑ نے توحید‘ نبوت اور قیامت کے بارے اپنا عقیدہ بیان کرنے کے بعد اپنے سفر کے مقاصد ان الفاظ میں بیان کئے۔(مدینہ سے ) میرا نکلنا نہ خود پسندی اور تفریح کی غرض سے ہے اور نہ فساد اور ظلم و ستم میرا مقصد ہے میں تو صرف اس لئے نکلا ہوں کہ اپنی نانا کی امت کی اصلاح کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انجام دوں اور اس کی انجام دہی میں اپنے نانا اور اپنے والد گرامی کی سیرت کی پیروی کروں۔ اب اگر کوئی میری دعوت کو حق سمجھ کر قبول کرے تو اس نے اللہ کا راستہ اختیار کیا ہے اور اگر میری دعوت کو مسترد کردے تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ میرے اور ان افراد کے درمیان فیصلہ کرے اور اللہ ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ اے بھائی ....یہی آپ کے لئے میری وصیت ہے اور میری توفیقات تو صرف اللہ کی جانب سے ہیں اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی جانب مجھے پلٹنا ہے۔
اہل کوفہ کے خطوط کے جواب میں امام ؑ کا مکتوب :
جب اہل کوفہ کو خبر ملی کہ امام نے مطالبہ بیعت مسترد کردیا اور آپ انحراف اور گمراہی کے خلاف جدو جہد کے لئے آمادہ ہیں اور مکہ تشریف لاچکے ہیں تو انہوں نے بڑی تعداد میں قاصد‘ انفرادی خطوط اور دستخط شدہ اجتماعی مکتوب حسین ابن علی ؑ کی خدمت میں ارسال کئے۔
جواب میں امام نے اپنے مکتوب میں فرمایا ”جو کچھ حضرات نے اپنے خطوط میں لکھا اور ذکر کیا اسے میں نے سمجھ لیا ہے ۔ ان خطوط میں اکثر میں آپ حضرات کی درخواست یہ تھی کہ ہمارا کوئی رہبر و رہنما نہیں ہے آپ جلد ہماری طرف آئیے تاکہ خداوند متعال آپ کے ذریعے ہمیں حق اور ہدایت پر جمع کرے لہذا میں اپنے بھائی‘ چچا کے بیٹے اور خاندان میں اپنے قابل اعتماد شخص مسلم بن عقیل ؑ کو آپ کی طرف بھیج رہا ہوں۔ میں نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ آپ کی رائے‘ سوچ اور وہاں کے حالات کے بارے میں مجھے تحریر کریں‘ اب اگر آپ کے عمائدین اور اہل فکر و نظر کی رائے بھی وہی ہوئی جو میں نے آپ کے خطوط میں پڑھی ہے اور جس کی آپ کے نمائندوں نے بالمشافہ ملاقاتوں میں مجھے خبر دی ہے تو انشاءاللہ میں بہت جلد آپ کی طرف روانہ ہوجاﺅں گا۔ اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ امام اور رہبر وہ ہے جو کتاب خدا پر عمل کرے‘ عدل و انصاف کا راستہ اختیار کرے ‘ حق کی پیروی کرے اور اپنے وجود کو اللہ کے لئے وقف کردے....والسلام“
مکہ مکرمہ میں امام حسین ؑ کا خطاب :
عراق روانگی سے قبل امام ؑ نے خاندان بنی ہاشم اور اپنے کچھ حامیوں کے سامنے جو مکہ میں قیام کے دوران آپ کے ساتھ ہولئے تھے یہ خطبہ ارشاد فرمایا ” تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ‘ وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے‘ اللہ کے سوا کوئی قدرت کارگر نہیں‘ درود و سلام اللہ کے رسول پر‘ انسانوں کے لئے موت اسی طرح لازم کردی گئی ہے جس طرح دوشیزہ کے گلے پر گردن بند،مجھے اپنے اسلاف اور اجداد سے ملاقات کا اتنا ہی اشتیاق ہے جتنا شوق یعقوب ؑ کو یوسف ؑ سے ملنے کا تھا۔ میری قتل گاہ معین ہوچکی ہے جہاں میں پہنچ کر رہوں گا۔ گویا میں خود دیکھ رہا ہوں کہ صحرا اور بیابان کے بھیڑیئے سرزمین کربلا اور نواویس کے درمیان میرے جسم کے ٹکڑے کرکے اپنے بھوکے پیٹ اور خالی تھیلے بھر رہے ہیں۔ خدا کے لکھے سے فرار ممکن نہیں۔ جس بات پر اللہ راضی ہوتا ہے ہم اہل بیت ؑ بھی اسی سے راضی ہوتے ہیں۔ ہم اس کے امتحان اور آزمائش پر صبر کریں گے اور وہ ہمیں صابروں کا اجر عنایت فرمائے گا۔ رسول خدا اور ان کے جگر گوشوں کے درمیان جدائی ممکن نہیں بلکہ بہشت بریں میں سب اکٹھے ہوجائیں گے جنہیں دیکھ کر آ نحضرت کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور آپ ان سے کئے ہوئے وعدے کو پورا کریں گے۔
جان لو تم میں سے جو بھی ہمارے اوپر اپنا خون نچھاور کرنا چاہتا ہو اور اللہ سے ملاقات کے لئے تیار ہو وہ ہمارے ساتھ چلے میں ا نشاءاللہ کل صبح روانہ ہوجاﺅں گا۔“
ثعلبیہ کے مقام پر ایک سوال کا جواب :
مقام ثعلبیہ پر ایک شخص امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس آیہ کریمہ کی تفسیر دریافت کی یوم ندعوا کل اناس بامامھم قیامت کے دن ہم ہر قوم کو اس کے امام اور پیشوا کے ساتھ بلائیں گے امامؑ نے جواب میں فرمایا ” ایک امام و پیشوا وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو راہ راست ‘ کامیابی اور سعادت کی طرف دعوت دیتا ہے ۔ کچھ لوگ اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور پیروی کرتے ہیں جبکہ ایک اور امام اور پیشوا وہ ہے جو لوگوں کو گمراہی اور بدبختی کی طرف بلاتا ہے ۔ ان میں سے پہلا گروہ جنت میں اور دوسرا گروہ دوزخ میں جائے گا۔“
مقام بیضہ پر لشکر حر سے خطاب:
امام ؑ نے اپنے اس خطا ب میں فرمایا ” اے لوگو! رسول خدا نے فرمایا ہے کہ ”اگر کوئی شخص کسی ظالم حاکم کو دیکھے جو اللہ کے حرام کئے ہوئے کو حلال بنارہا ہو ‘ خدا سے کئے ہوئے عہد و پیمان توڑ رہا ہو‘ رسو ل کی سنت کی مخالفت کرتا ہو اورخدا کے بندوں کے ساتھ ظلم و ستم سے پیش آتا ہو اور (یہ شخص) ایسے حاکم کو دیکھنے کے باوجود اپنے عمل یا اپنے قول سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اللہ کو حق ہے کہ اس خاموش اور بے عمل شخص کو اسی ظالم کے ہمراہ عذاب میں مبتلا کرے۔“
کربلا پہنچنے کے بعد امام ؑ کا خطاب :
2 محر م الحرام 61 ھ کو کربلا پہنچے اور کچھ دیر توقف کے بعد اپنے اصحاب اور اہل بیت ؑ کے سامنے یہ خطبہ ارشاد فرمایا ” معاملات نے جو صورت اختیار کرلی ہے وہ آپ کے سامنے ہے یقینا دنیا نے رنگ بدل لیا اور بہت بری شکل اختیار کرگئی ہے اس کی بھلائیوں نے منہ پھیر لیا اور نیکیاں ختم ہوگئی ہیں اور اب اس میں اتنی ہی اچھائیاں باقی بچی ہیں جتنی کسی برتن میں باقی رہ جانے والا پانی۔اب زندگی ایسی ہی ذلت آمیز اور پست ہوگئی ہے جیسا کوئی سنگلاخ اور چٹیل میدان۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور کوئی باطل سے رُکنے والا نہیں ہے۔ ان حالات میں مرد مومن کو چاہیے کہ وہ خدا سے ملنے کی آرزو کرے۔ میں جانبازی اور شجاعت کی موت کو ایک سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنا میرے نزدیک بوجھ ہے.... امام ؑ نے مزید فرمایا ”لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں پر ہے یہ بس اس وقت تک دین کے حامی ہیں جب تک ان کی زندگی آرام و آسائش سے گزرے اور جب امتحان میں ڈالے جائیں تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں۔“
شب عاشور امام ؑ کا خطاب :
شب عاشور خاندان بنی ہاشم کے افراد اور اپنے اصحاب کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا ۔ ”میں اللہ تعالی کی بہترین تعریف و ثنا کرتا ہوں اور آسائشوں اور سختیوں میں اسی کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اے اللہ میں تیری حمد بجا لاتا ہوں کہ تو نے ہمارے گھرانے کو نبوت کے ذریعے شرف و احترام عنایت فرمایا اور ہمیں قرآن کی تعلیم دی‘ ہمیں دین کی فہم عطا کی اور ہمیں حق کو سننے والے کان‘ حق کو دیکھنے والی آنکھیں اور روشن و نورانی قلب عطا فرمایا اور ہمیں مشرکوں میں قرار نہیں دیا۔ اما بعد! میں نے اپنے اصحاب سے بہتر اصحاب کہیں نہیں دیکھے اور نہ کسی کے اہل خانہ اپنے اہل بیت سے بڑھ کر باوفا اور حق شناس پائے‘ خدا آ پ سب کو میری طرف سے جزائے خیر عنایت کرے۔“
صبح عاشور امام ؑ کی دعا :
بارالہا! ہر رنج و غم میں تو ہی میرا سہارا اور ہر مشکل میں تو ہی میری امید کا مرکز ہے۔ مجھ پر جب کبھی مصیبت نازل ہوئی میں نے تیری ہی پناہ لی ہے۔ کتنے ہی ایسے مصائب و آلام آئے جب دل کمزور ہوگئے‘ چارہ و تدبیر کے راستے بند ہوگئے‘ دوست ساتھ چھوڑ گئے اور دشمنوں نے خوشیاں منائیں لیکن میں نے تیری ہی طرف رجوع کیا تجھ سے ہی فریاد کی اور تیرے سوا ہر کسی سے بے نیاز ہوکر تجھ سے ہی لو لگائی اور تو نے مجھ سے ہر مصیبت کو دور کیا اور ہر رنج و الم سے مجھے نجات دلائی۔ بے شک تو ہی ہر نعمت کا مالک اور ہرحاجت کا مرکز ہے۔“
قتل گاہ کربلا سے امام ؑ کا آفاقی پیغام :
امام عالی مقام نے واضح کیا کہ ”اے خاندان ابوسفیان کے پیروکارو! اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور قیامت کا بھی تمہیں کوئی خوف نہیں تو کم از کم اس دنیا میں آزاد انسانوں کی طرح زندگی بسر کرو اور اگر خود کو عرب سمجھتے ہو تو اپنے اجداد کی سیرت ہی کو پیش نظر رکھو۔“
گویا کربلا کے مقتل سے ہر دور سے تعلق رکھنے والے تمام انسانوں کے لئے ایک عمومی اعلامیہ اور عالمی منشور کے طور پر آپ کا پیغام تھا کہ اے انسانو! اگر تم آسمانی احکام او ر اللہ کے قوانین کے معتقد اور پابند نہیں تو کم از کم اپنی آزادی کا تحفظ تو کرو۔
حسینؑ ابن علیؑ کی آخری مناجات :
امام ؑ نے اپنی آخری مناجات ان جملات پر ختم کی ۔ ”بارالہا!ہم تیری قضا و قدر کے سامنے صابر و شاکر ہیں‘ تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘ اے فریاد کرنے والوںکے فریاد رس‘ تیرے سوال میرا کوئی پالنے والا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی معبود ہے‘ میں تیرے حکم پر صبر کرنے والا ہوں۔ اے اس کی مدد کرنے والے جس کا کوئی مددگار نہ ہو‘ اے ہمیشہ زندہ رہنے والے جس کا کوئی اختتام نہیں ہے‘ اے مردوں کو زندہ کرنے والے اور ہر ایک کے اعمال کے مطابق اس کا حساب کرنے والے‘ تو ہی میرے اور ان (لوگوں) کے درمیان فیصلہ فرما اور تو ہی فیصلہ کرنے والوں میں سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ پھر جب خاک پر اپنا چہرہ رکھا تو فرمایا بسم اللہ و باللہ و فی سبیل اللہ و علی ملة رسول اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مبصر ڈاٹ کام ۔۔۔ کا کالم نگار، بلاگر یا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے کالم / مضمون یا اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر اور مختصر تعارف کے ساتھ info@mubassir.com پر ای میل کریں۔ ادارہ