وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح ہرطبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ترقی کی ہے اسی طرح بھکاریوں نے بھی ترقی کی ہے اسی طرح بھکاریوں میں بھی دوطرح کے طبقے پائے جاتے ہیں ایک بھکاری تووہ ہیں جومستقل طورپرنسل درنسل کسی علاقہ کے رہائشی ہوتے ہیں اوران کواس علاقہ کے لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کیونکہ ان کے باپ دادابھی اسی علاقہ میں بھیک مانگتے تھے اور ان کے کردارکابھی سب کوپتہ ہوتاہے اورعلاقہ کے لوگ بھی جب فصل اترتی ہے توان کاباقاعدہ حصہ نکالاجاتاہے۔ یہ لوگ ہردروازہ پرجاکرگداگری کرکے اپنے بچوں کاپیٹ پالتے ہیں۔ ان مستقل رہائش پذیربھکاریوں میں چوری یاکوئی بھی کرائم کاعنصرنہیں پایا جاتا بلکہ ان کے اوپرکوئی الزام لگ بھی جائے توعلاقہ کے لوگ ان کی گواہی دیتے ہیں یہ لوگ غلط نہیں ہیں۔
اسی طرح ہرشخص ان کاخیال رکھتاہے کہ یہ ہمارے علاقے کے فقیرہیں اوریہ گداگر روزانہ کی بنیادپربھی بھیک نہیں مانگتے جب علاقہ میں کوئی شادی یاخوشی ہویاپھرجب زمینداروں کی فصلیں اترتی ہیں تب جاکرگداگری کرکے اپناپورے سال کاراشن اکٹھاکرلیتے ہیں۔ لوگ بھی ان کاخیال رکھتے ہیں کہ یہ نسل درنسل چلے آرہے ہوتے ہیں علاقہ کاہرشخص ان کوذاتی طورپرجانتا ہے ۔یہ بھکاری بڑے نیازمند اور دعاگو گداگر ہوتے ہیں ان کے مانگنے کاطریقہ انداز بھی کمال ہوتاہے۔ یہ صبح تمہید کے وقت نکلتے ہیں مختلف گلی کوچوں میں صدا لگاتے جاتے ہیں دعادیتے جاتے ہیں چلتے چلتے جس جگہ پرسورج طلوع ہوجائے پھر واپسی انہیں گلیوں میں آجاتے ہیں جہاں سے وہ پہلے گزرگئے تھے۔ پھریہ ہر دروازہ پرجاکر صدا لگاتے ہیں لوگ بڑی عزت کے ساتھ ان کوخیرات دیتے ہیں لوگوں کوپتہ ہوتاہے کہ یہ وہی فقیر ہے جوصبح صبح اذان کے وقت دعائیں دے کرچلا گیا تھا۔
بھکاریوں کادوسراطبقہ وہ ہے جس کی مستقل کہیں رہائش نہیں ہوتی یہ خانہ بدوش لوگ ہوتے ہیں انہوں نے پوراپاکستان گھومنا ہوتاہے اب یہ خانہ بدوش پہلے والے خانہ بدوش نہیں رہے اب ان کے اندربھی تبدیلی آگئی ہے پہلے والے خانہ بدوش جرائم نہیں کرتے تھے ۔اب ان خانہ بدوشوں کی تعدادپاکستان میں بہت زیادہ ہوگئی ہے لاکھوں میں چلی گئی ہے ۔اب انہوں نے بھی بڑی ترقی کرلی ہے۔ پہلے یہ لوگ سارا سفر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لئے گدھاگاڑیوں پرکرتے تھے اب ان کی جگہ ہرخانہ بدوش کے پاس موٹرسائیکل رکشے آگئے ہیں اب ہرخانہ بدوش کے پاس اپناذاتی موٹرسائیکل ہے ۔ ان تمام مرد،عورتوں اوربچوں کے پاس قیمتی موبائل فون ہے پہلے یہ چھوٹی چھوٹی جگہوں میں رہتے تھے اب یہ پوراخیمہ لگاتے ہیں اورہرخیمہ میں کولر،پنکھا،ایل ای ڈی چل رہے ہوتے ہیں۔ہرجھگی والے نے سولرپلیٹوں کا انتظام کیا ہوا ہے اور بڑی ٹھاٹھ کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ۔ظاہری طور پرتو ان لوگوں نے بھکاریوں کاروپ دھارا ہوا ہے ۔پورے پاکستان میں اسلحہ سپلائی یہی خانہ بدوش کرتے ہیں پورے پاکستان کے اندر ان کااتنا نیٹ ورک مضبوط ہے کہ بڑے لیول کی منشیات کی سپلائی بھی خانہ بدوش کرتے ہیں ان کی عورتیں آئے دن گھروں میں وارداتیں کرلیتی ہیں۔ بھیگ مانگنے کے بہانے گھرکوئی عورت اکیلی بیٹھی ہو یا دو سے تین خواتین ہوں تو یہ گروہ کی صورت میں گھر میں داخل ہو کر اس کوباندھ کر یا کوئی نشہ آورچیز دے کرپورا گھرلوٹ لیتی ہیں۔
باہر ان کے مردحضرات موٹرسائیکلوں پرگھوم رہے ہوتے ہیں واردات کے فوراً بعدان عورتوں کوکولے بھاگ جاتے ہیں۔جرائم پیشہ بھکاریوں کو کسی کی جان کی کوئی پرواء نہیں ہوتی اور واردات کے دوران قتل کر دینا ان کیلئے عام سی بات ہے ۔انہی بھکاریوں کے پاس کاریں بھی ہونے کی اطلاعات ہیں جو جرائم میں کام آتی ہیں ۔اغواء برائے تاوان کی کاروائیوں میں ملوث ہونے کے انکشافات ہیں ۔یہ اب جرائم کے لحاظ سے مافیا بن چکاہے ۔ یہ آپس میں شہرتبدیل کرتے رہتے ہیں ایک گروہ جوجگہ چھوڑکرچلاجاتاہے اسی جگہ پردوسرا گروہ آکر بیٹھ جاتاہے ان کی خواتین سارادن بھیک مانگتی ہیں اورواردات کےلئے ریکی کرتی ہیں اوران کے مرد وارداتیں کرتے ہیں۔ دس پندرہ دن میں اپنا ٹارگٹ پورا کر کے فوراً اگلے شہرمنتقل ہوجاتے ہیں۔
مجھے ان کے بھکاریوں کے ٹھیکیدارنے یہ ساری باتیں بتائیں کہ بھکاریوں کے مختلف روپ ہوتے ہیں اس نے کہاکہ ہماری عورتیں ایک بازارمیں ایک دن میں تین بارچکرلگاتی ہیں پہلی بارکالے برقعہ میں جاتی ہیں دوسری بار ٹوپی والابرقعہ یاکسی اورروپ میں تیسری بارکسی معذوری والے روپ میں اسی طرح مردحضرات بھی معذوربن کرجاتے ہیں مگرہوتے نہیں،اس میں ایک خاص بھکاری روپ نوجوان دوشیزائوں کو دیا جاتا ہے جو نوجوان نسل کو بے راہ روی کے راستے پر لانے اور رقم اینٹھنے کیلئے جنسی تعلقات سمیت منشیات کا عادی بناتی ہیں ۔اس نے مزیدانکشاف کیاکہ ہم بچوں کومعذورخودبناتے ہیں کسی بچے کی ٹانگ کومعذور کر دیا کسی بچے کا بازو معذور کر دیا۔اس نے کہاکہ پاکستان میں جتنے بھی چھوٹے سروالے دولت شاہ کے چوہے بازاروں میں مانگ رہے ہوتے ہیں یہ مادرذات نہیں ہوتے ان کے سروں کے اوپر لوہے کی کوئی چیزچڑھا کرچھوٹے چھوٹے بچوں کے سروں کو چھوٹا کیا جاتا ہے۔ ان بچوں کو مختلف علاقوں کے ٹھیکیداروں کو دے کرپوراسال بھیک منگوائی جاتی ہے۔
حکومت پاکستان کوچاہیے کہ پورے پاکستان کے جوخانہ بدوش ہیں ان کورجسٹرڈ کیاجائے ان کے شناختی کارڈ بنائے جائیں اوران کومستقل طور پر کچی آبادیوں میں رہائش پذیرکیاجائے۔ ان کے بچے جولاکھوں کی تعداد میں بھیک مانگتے اور مختلف جرائم کرتے پھر رہے ہیں ان کوفوراً سکولوں میں داخل کروایاجائے یاکوئی سرکاری طور پر ہنر سکھایاجائے تاکہ ان کاضمیر جگا کر مستقبل کے جرائم پیشہ بھکاری بننے سے بچایاجائے ورنہ یہ بچے ماں باپ کودیکھ کرنسل درنسل بھکاری بنتے آئیں گے۔ اگران کی طرف حکومت پاکستان نے توجہ نہ کی توایک دن ان کوکنٹرول کرنابہت مشکل ہوجائے گا۔ان بھکاریوں کی نئی نسل بہت خطرناک ثابت ہوگی یہ نسل بھیک مانگ کرنہیں دن دہاڑے بازاروں میں سرعام چھین کر روٹی روزی کھانے کے ساتھ قتل و غارت پر اتر جائیں گے۔ اگران کی نسل کوتعلیم یا ہنر دلوا کر مہذب شہری نہ بنایا گیا تو یہ آنے والے وقت میں نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مبصر ڈاٹ کام ۔۔۔ کا کالم نگار، بلاگر یا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے کالم / مضمون یا اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر اور مختصر تعارف کے ساتھ info@mubassir.com پر ای میل کریں۔ ادارہ