Tuesday, 03 October, 2023
مرُجھاتے پھول

مرُجھاتے  پھول
تحریر: شمائلہ شاہین

پھول اردگرد کا ماحول مہکا دیتے ہیں اور دیکھنے والوں کویہ رنگین نظارے اچھے لگتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ بچے بھی ان پھولوں کی مانند ہیں جواپنے اردگرداپنی معصوم مسکراہٹوں سے خوشیاں بکھیرتے ہیں۔ بچے کسی بھی ملک کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں ،لیکن اس کے باوجود بچوں  کی ایک بڑی تعداد سکول کے بجائے ورکشاپس، کارخانوں اور لوگوں کے گھروں میں کام کرتی نظر آتی ہے ،ان بچوں پر ظلم و بربریت کی داستانیں بھی منظرعام پر آتی رہتی ہیں ۔جو عمر انکے کھیلنے  کودنے اور پڑھنے لکھنے کی ہوتی ہے اس عمر میں یہ معصوم پھول زندگی کی خوشیوں سے محروم اور اپنے حقوق سے لاعلم، سانسوں کی روانی کے لیے، ماہانہ دو ہزار کے عوض لوگوں کے گھروں میں کام کرتے نظر آتے ہیں، جس عمر میں  اہلخانہ  کو انکا بوجھ اٹھانا چاہئے اُس عمر میں یہ بچے اپنے اہلخانہ کا بوجھ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ کچھ دن پہلے زھرہ نامی بچی کو صرف طوطے کے اڑ جانے پر قتل کر دیا گویا مالکان کے نزدیک طوطا انسانی جان سے زیادہ قیمتی تھا، اسی طرح کچھ ماہ پہلے ایک بچی ایک جج صاحب کی بیگم کے ہاتھوں ایسے ہی تشدد کا نشانہ بنی۔مشہور و معروف نیوز اینکر غریدہ فاروقی کے گھر کا ایک ایسا ہی واقعہ ٹی وی چینل اورسوشل میڈیا کی زینت بنا تھا، صرف یہ ہی نہیں بلکہ ایسے کئی واقعات منظرعام پر آتے رہتے ہیں۔ جن گھروں میں یہ بچے کام کرتے ہیں وہاں کی اکثریت پڑھے لکھے اور مہذب یافتہ  طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان بچوں کی چھوٹی سی غلطی کو بھی ناقابل معافی جرم قرار دے کر ظلم کی انتہا کی جاتی ہے۔نہ جانے اُس وقت انساانی حقوق کی تنظیمیں جو وومین ڈے پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں کیوں  خاموش ہو جاتی ہیں  کیوں کوئی ریلی نہیں نکالی جاتی، کیوں ان بچوں کے لیےکوئی ڈے نہیں منایا جاتا؟ جب یہ بچے فیکٹریوں ،ورکشاپس اور لوگوں کے گھروں میں کام کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے مالکان کے خلاف  کیوں کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا؟۔ یہ بچے کس سے اپنے لیے انصاف کا تقاصا کریں اُن سے جو خود ان بچوں کو کسی کے گھر کام کے لیے بھیجتے ہیں یا ان حکمرانوں سے جو سینیٹ اور اسمبلیوں میں بل تو منظور کرتے ہیں،قوانین بناتے ہیں لیکن ان پر عمل درامد کرانے سے بازرہتے ہیں۔ جب ان بچوں پر ظلم و تشدد ہوتا ہے  یا ان کا قتل ہو جاتا ہے ،تومحض فرضی کاروائی کی جاتی ہے،یا مالکان ان بچوں کے والدین کو چند ہزار دے کر خاموش کروا دیتےہیں۔مجرمان کو کیف کردار تک نہیں پہنچایا جاتا جسکی وجہ سے بچوں پر ظلم و تشدد کے واقعات میں کمی کے بجائےاضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اسطرح کی خبریں آئے روز سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر سننے کو ملتی ہیں۔ اکثریت مغربی کلچر کی دلدادہ ہے ، لیکن اس کے باوجود  نہ تو مکمل طور پر مغربی اصولوں کو اپنا سکی اور نہ ہی اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہو سکی ۔مغربی ممالک میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے اس کے لیے قوانین بھی موجود ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے مجرمان کو کیف کردار تک پہنچایا جاتا ہے  اور وہاں کی اکثریت بھی بچوں سے مزدوری کرانا سخت نا پسند کرتی ہے۔اسلام میں بچے اپنے والدین کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ بچوں کا گھروں، ورکشاپس اور فیکٹریوں  میں کام کرنے کی بڑی وجہ غربت  نہیں بلکہ والدین کی فرسودہ  سوچ ہے، ان کا ماننا ہےکہ  بچوں کو تعلیم دلوانا محض  پیسے اور وقت کا ضیاع ہے ۔ بچوں کو کام پر لگا کر  ہنرمند بنا دیا جائے۔ 

مجھے تعجب ہوتا ہے ان والدین پر جو اپنے بچوں کو لوگوں کے گھروں میں کام پر بھیجتے ہیں ،یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس معاشرے میں درندا  صفت انسان بھی رہتے ہیں ۔ مجھے حیرت ہوتی ہے اپنے حکمرانوں پر  جو انصاف کے نعرے لگاتے ہیں  لیکن اقتدار میں آتے ہی غفلت کی نیند سو جاتے ہیں ،مجھے حیرت ہوتی ہے امن قائم کرنے والے اداروں پر، مجھے حیرت ہے ان تہذیب  یافتہ  دور کےپڑھے لکھے لوگوں پر ،جو خود  کواکیسویں صدی کا مہذب یافتہ، اورباشعور انسان کہتے ہیں اس کے باوجود جو ظلم کی تاریخ رقم کرتے ہیں ۔سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا  کو ایسی سوچ کو تبدیل کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرناہو گا۔وطن عزیز کا قیمتی سرمایہ ضائع ہونے سے بچانا ہوگا۔
پاکستان میں اس ضمن میں چودہ سال پہلے چائلڈ لیبر ایکٹ بل بھی منظور کیا گیا جس پرآج تک عمل درآمد نہیں کرایا جا سکا۔حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد جوہوٹلوں، ورکشاپوں اور گھروں میں کام کر رہے  ہیں،انھیں تعلیم مہیا کرے اوران قوانین پرعملدرامد کرائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مبصر ڈاٹ کام ۔۔۔ کا کالم نگار، بلاگر یا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے کالم / مضمون یا اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر اور مختصر تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ ادارہ

اپنا تبصرہ دینے کے لیے نیچے فارم پر کریں
   
نام
ای میل
تبصرہ
  72034
کوڈ
 
   
مقبول ترین
سینیٹ میں سینیٹر رضا ربانی نے آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) بل 2023 پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اس کا مسودہ پھاڑ دیا اور کہا کہ یہ بل اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آرہا ہے، آج صبح ہی میں نے 8 ترامیم تجویز کیں ہیں۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات منفرد اور مضبوط ہیں جس نے تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی مضبوطی کو ثابت کیا ہے۔ پیپلزلبریشن آرمی اور پاکستان آرمی ایک دوسرے کے بھائی ہیں
وزیراعظم نے مردم شماری سے متعلق کہا کہ جو مردم شماری ہوئی ہے اسی پر انتخابات کرائے جائیں اور یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے ہماری نہیں کیوں کہ ہماری مدت 12 اگست کو پوری ہوجائے گی
قومی اسمبلی نے سیکریٹ ایکٹ 1923ء میں ترامیم کا بل منظور کرلیا جس میں زمانہ جنگ کے ساتھ زمانہ امن کو بھی شامل کیا جاسکے گا، حکومت کو حالت امن میں بھی کسی بھی جگہ، علاقے، بری یا بحری راستے کو ممنوعہ قرار دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔

پاکستان
 
آر ایس ایس
ہمارے پارٹنر
ضرور پڑھیں
ریڈرز سروس
شعر و ادب
مقامی خبریں
آڈیو
شہر شہر کی خبریں