![]() |
رات کے پہر جب اچانک بجلی کے جانے سے میری آنکھ کھلی، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور کچھ بھی نہیں آرہا۔ ایسے میں کوشش کی کہ موبائل کی ٹارچ جلا کچھ دیر باہر چلا جاؤں۔ گرمی اور گبھراہٹ سے دل بے چین ہو پڑا تھا۔ بلآخر دل بہلانے کے لیے گھر کے صحن میں چل پڑا اور سوچا کیوں نہ کچھ دیر خبریں دیکھ لوں۔ یوٹیوب کو کھولا تو 12 بجے کی ہیڈ لائنز دیکھنے کو ملیں۔
خبروں کی شہ سرخیوں کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی سیاست ہے۔ عمران خان کی تقاریر، نواز شریف کے بیانات،مریم نوازا کے ٹویٹ ۔۔۔۔بلاول کی للکار، شیخ رشید کی پیش گوئیاں اور فضل الرحمان کی باتیں۔۔۔۔ پوری قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔
کسی نے روٹی کپڑا مکان دینے کے جھوٹے وعدے کرکے عوام کو بہلایا تو کسی نے سڑکیں اور پل بنا کر ملک کو لوٹا، تو کوئی تبدیلی کے نعرے لگا کر عوام کے جذبات سے کھیل رہا ہے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس ملک کو بنے اتنے برسوں میں کتنی حکومتیں آئیں اور کتنی گئیں، کتنے مارشل لاء لگے مگر آج بھی ہمارا ملک وہیں کا وہیں کھڑا ہے کوئی اس نظام کو بدل نہ سکا۔
ہیڈ لائنز میں سیاست کے علاوہ عام عوام کے کوئی مسائل دیکھنے کو نہیں ملے، ملک کس طرف جا رہا ہے کچھ پتا نہیں یا میڈیا وہ دکھنا نہیں چاہتا۔ کون ملک کا دشمن ہے, کون وفادار اور کون غدار ہے کوئی نہیں جانتا۔ عوام کے منتخب نمائندے صبح و شام ایک دوسرے پر الزامات لگانا، لعن طعن اور گالیاں دینا شاید اسے اپنا سیاسی فخر سمجھتے ہیں اور اسی پر ان کی سیاست کا منجن بک رہا ہے۔ ہر طرف ناامیدی اور مایوسی کے اندھیرے چھاتے ہوئے ہیں۔ ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح جس طرف چلائیں ہم چل پڑتے ہیں۔
ہماری عوام اس سارے تماشے میں اندھی، بہری اور گونگی ہو چکی ہے کہ جسے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کرے۔
عوام غربت کی چکی میں دن بدن پستی جاری ہے۔ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ غریب کا جینا مشکل ہوگیا ہے اور اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ لوگ خود کشیاں کرنے کی نوبت تک پہنچ آئے ہیں۔
ملک کے جس بھی محکمے میں چلے جاؤ بدعنوانیوں کے انبار لگے ہیں، رشوت لینا اور دینا تو اب قومی فریضہ بن چکا ہے۔ جھوٹ، بے ایمانی،دھوکا، منافقت، الزام تراشی اور بدمعاشی کو سیاست میں اعلیٰ ظرفی سمجھا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کھولو تو جو طوفان بدتمیزی وہاں برپا ہے اس کا کوئی مول نہیں۔ آزادی رائے کے نام پر ملک کے حساس اداروں اور عدلیہ کے خلاف زہر اگل کر انہیں نشانہ بنانے کی مہم جاری ہے۔ بیرونی سازشیں اتنی طاقت ور ہوگئی ہیں کہ سوشل میڈیا کو ہتھیار بناکر ہمارے ہی ملک میں ہمارے ہی خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ ہمارے لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت کی آگ کو بھڑکانے کے لیے کبھی مذہبی انتہا پسندی تو کبھی فرقہ واریت کو جواز بنا کر ملک میں فسادات کیے جارہے ہیں۔
اگر کوئی کسی کے نظریہ یا رائے سے متفق نہیں تو گالی گلوچ، بداخلاقی اور بدتہذیبی کے جو عالمی ریکارڈ قائم کئے جاتے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
تعلیمی اداروں اور جامعات میں طلباء کو نسلی اور علاقائی تعصب میں لڑوا کر درس گاہوں کو میدان جنگ میں بدل دیا گیا اور جو جامعات اس آگ سے محفوظ ہیں وہاں منشیات کے اڈے قائم کرکے ملک کا مستقبل تباہ کیا جارہا ہے۔
ہمارا دشمن ہماری صفوں میں رہ کر ہمیں اندر سے ہی ختم کرنے کی کوششوں میں ہے مگر ہم پھر اس سب سے غافل ہیں۔ بے حسی اور مفاد پرستی نے ہمیں اتنا اندھا کر دیا ہے کہ ہمیں اپنے علاوہ تو کوئی اور نظر نہیں آتا۔
آج قوم کو پھر سے ایک ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ دشمن ہماری گردن تک پہنچ چکا ہے ۔ ایمان،اتحاد اور تنظیم آج بھی ہمیں ہمارے قائد کا فرمان یاد دلا رہا ہے جو اس قوم کی طاقت کا سر چشمہ ہے اور دشمن کی ہر سازش کو منہ توڑ جواب بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مبصر ڈاٹ کام ۔۔۔ کا کالم نگار، بلاگر یا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے کالم / مضمون یا اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر اور مختصر تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ ادارہ