آج یہ کہتے ہوئے دل کر رہا ہے کہ مسلسل ہنستی رہوں کہ سپر پاورامریکہ۔۔۔ جی ہاں! وہی امریکہ جس نے افغانستان کو کھنڈرات میں بدل دیا وہی امریکہ جس نے عراق پر ایک عرصہ جنگ مسلط کیے رکھی، کبھی بمباری کر کے تو کبھی داعش کی شکل میں کیڑے مکوڑوں کی فوج بنا کے، عراق پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہا۔ جی، وہی امریکہ جس کے غلام بیشتر عرب ممالک کے لالچی حکمران ہیں وہی امریکہ جس نے اپنی ناجائزاولاد اسرائیل کو زبردستی دنیا سے تسلیم کرا کے فلسطینوں پر قیامت توڑی۔ جی بالکل وہی امریکہ جس نے عراق/ایران کے ہر دلعزیزجرنیل کو ٹارگٹ کر کے قتل کرا دیا۔ جی وہ ہی امریکہ جس کی لونڈی اقوام متحدہ انسانی حقوق کی پامالی کی گردان کرتے کرتے نہیں تھکتی۔ جی وہ ہی امریکہ جسے یمن، کشمیر، بحرین، شام اورفلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی کبھی نظر نہیں آئی، ہاں مگر ایران میں چڑیا کا بچہ بھی اگر خدانخواستہ مر جائے توامریکہ بہادرکی جانب سے ایران پر مزید پابندیوں کے اطلاق کا اعلان کردیا جاتا ہے کہ وہاں استحصال ہو رہاہے۔ جی اسی امریکہ میں ایک گورے پولیس انسپیکٹر نے ایک کالے امریکی شہری کو گردن دبا کے مار دیا اور مقتول کہتا رہا کہ میں سانس نہیں لے پا رہا، مجھے سانس نہیں آرہی، شاید کوئی سترہ بار اس نے التجا کی کہ میں سانس نہیں لے پا رہا مگر گورے امریکی انسپیکٹرنے اپنا گھٹنا مظلوم امریکی کی گردن سے نہ اُٹھایا اور آخر میں اس بیچارے نےدم توڑ گیا۔۔۔ ہائے افسوس! وہ کالا امریکی شہری تو مر گیا مگر امریکہ کا سیکولر ریاست ہونے کے دعوی کو بےنقاب کر گیا۔ جہاں نسلی امتیاز کی بنا پر کالوں کے ساتھ ہمیشہ زیادتی ہوئی ہے، جہاں ایک سیاہ فام بچے کو بجلی کے جھٹکے دے کر قتل کی سزا عدالت نے صرف اس لیے دی کہ اس کے گھر سے دو گوروں کی لاش ملی وہ بارہ سالہ بچہ اپنی صفائی میں کہتا رہ گیا کہ دہرا قتل اس نے نہیں کیا، مگر صرف پندرہ منٹ میں عدالت نے فیصلہ کیا اور اسے لوہے کی ٹوپی پہنا کے ہائی وولٹج کرنٹ کے جھٹکے دے کر مار دیا گیا جب کہ بعد میں وہ بے قصور ثابت ہوا جی اسی امریکہ کا وہ سیاہ فام بچہ تھا اورآج اسی امریکہ کا یہ سیاہ فام آدمی تھا جسے وہاں کی پولیس نے بے قصورمارا مگر ہوا کیا اس اقدام قتل سے آج امریکہ کی ساری عوام اسی سپر پاور کے جھنڈے جلا رہی ہے، اسی سپر پاور کے وائٹ ہاوس تک عوام کا سمندر احتجاجی شکل میں پہنچ گیا اور فرعون وقت کا محل بھی عوام کی دسترس میں آن پہنچا اور فرعون وقت کو فرار ہونے پرمجبور کردیا۔
یہی نہیں عوام بڑے بڑے اسٹوروں میں گھس کے لوٹ مار بھی کر رہی ہے، مسلسل توڑ پھوڑ ہو رہی ہےاور احتجاج کا یہ سلسلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے ایک طرف کورونا کی وبا سے پہلے ہی امریکی معشیت کم وبیش ڈوب چکی ہے۔ علاوہ ازیں کورونا کی وبا پر قابو پانے میں بھی ٹرمپ حکومت بری طرح ناکام رہی ہے۔ جبکہ سیاہ فام امریکی کے قتل کے اندوہ ناک واقعہ کے بعد سے عوام کرونا کے ڈراورخوف کے بنا سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کر رہی ہے۔ ان حالات سے یہ امید کی جاتی ہے کہ سپر پاور امریکہ کا بت آہستہ آہستہ اپنے ہی قدموں تلے آ کر گرے گا۔ اپنی ہی عوام کے ہاتھوں پوری دنیا میں رسوا ہونے والا سپر پاور امریکہ اب مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہو رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب سپر پاور امریکہ بھی سوویت یونین کی طرح ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مبصر ڈاٹ کام ۔۔۔ کا کالم نگار، بلاگر یا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے کالم / مضمون یا اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر اور مختصر تعارف کے ساتھ info@mubassir.com پر ای میل کریں۔ ادارہ