Saturday, 02 December, 2023
ترکی میں پاکستانیوں کو بڑے احترام سے دیکھا جاتا ہے، عمیر پرویز خان

ترکی میں پاکستانیوں کو بڑے احترام سے دیکھا جاتا ہے، عمیر پرویز خان
انٹرویو: وحید اختر ۔۔۔ (استنبول)

 

 عمیر پرویز خان سلجوق یونیورسٹی قونیہ ترکی میں بین الاقوامی تعلقات کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں وزیٹنگ لیکچرار کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں۔ سیاست میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں اور ممتاز کشمیری رہنما سردار خالد ابراہیم خان کے زیر تربیت رہے ہیں۔ آپ نے آزاد کشمیر میں کئی سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا تاہم آزاد کشمیر عدلیہ میں پانچ ججوں کی غیر آئینی تقرریوں کے خلاف سردار خالد ابراہیم خان کے شانہ بشانہ رہے اور بالآخر اس تحریک کے نتیجہ میں وہ تقرریاں کالعدم قرار دی گیئں۔ موجودہ وقت میں آپ جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے چئیرمین میڈیا ڈویلپمنٹ کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ کالم نگار کی حیثیت سے بھی قومی اخبارات و بین الاقوامی جریدوں میں وقتا فوقتا آپ کے مضمون و ریسرچ شائع ہوتی رہتی ہیں۔ آپ مسلہ کشمیر کے ماہر ہیں اور قومی و بین الاقوامی فورمز پر مسلہ کشمیر پر کام کیا ہے۔ آپ یقینا نوجوانوں نسل کے لئے مشعل راہ ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے ان سے ہمارے نمائندہ وحید اختر کی ایک نشست شائع کی جا رہی ہے۔

سوال: آپ کا تعلق کہاں سے ہے اور ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی ؟ 
جواب: میرا تعلق راولاکوٹ آزاد کشمیر سے اور میں نے میٹرک پرل ویلی پبلک سکول راولاکوٹ سےکی۔ اس کے بعد میں نے مقامی کالج سے ہی ایف ایس سی کی اور بی ایس ماس کمیونیکیشن کی ڈگری نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد سے حاصل کی۔  بعدازاں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم فل کیا اور اب ترکی سے اس شعبہ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں۔ 

سوال: آپ کا خاندانی پس منظر کیا ہے؟ 
جواب: جی میں ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے والد پروفیسر ریٹائرڈ ہیں اور والدہ بھی تعلیم کے شعبہ میں رہیں اور وہ بھی حال ہی میں پروفیسر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئی ہیں۔ میں بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہوں اور میرے بڑے بھائی انجینئر ہیں، ایک بہن ڈاکٹر ہیں، ایک لیکچر ر اور ایک ابھی میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ 

سوال:  پی ایچ ڈی کرنے کا خیال کیسے آیا اور پھر ترکی ہی کیوں؟ 
جواب: میرے والدین چونکہ درس و تدریس سے وابستہ رہے تو میری خواہش تھی کہ میں اس شعبہ میں بھی کام کر سکوں۔ اسی لئے پی ایچ ڈی کرنے کا سوچا تاکہ معاشرہ کو بہتر انداز سے کچھ لوٹایا جا سکے۔ رہی بات ترکی سے پی ایچ ڈی کرنے کی تو یہ فیصلہ میرے والدین کا تھا ورنہ میرے پاس اس کے علاوہ بھی آپشنز موجود تھےتاہم اب میں مطمئن ہوں چونکہ ترکی میں پاکستایوں کو بڑے احترام سے دیکھا جاتا ہے اور حقیقی معنوں میں یہ ہمارا دوسرا گھر ہے ۔ 

سوال: پی ایچ ڈی کرنے کے بعد یہاں (ترکی) میں موقع ملا تو کیا مستقل رہائش اختیار کر لیں گے؟ 
جواب: جی نہیں۔ ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں۔ میں پاکستان واپس جاوں گا اور اپنے ملک و قوم کی بہتری کے لئے کام کرنے کی کوشش کروں گا کیونکہ میرے خیال میں ہمارے ملک کو ہماری زندگی چاہئے نہ کہ ہمارے تابوت۔


سوال: سیاست میں کب سے ہیں اور کس سے متاثر ہوئے؟ 
جواب: میں نے سیاست کا آغاز طالبعلمی کے دور سے ہی کر دیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نہم جماعت کا طالبعلم تھا (2006) جب میں نے پہلی الیکشن کمیشن میں حصہ لیا تھا۔ سیاست میں دلچسپی میرے ماموں سردار شکیل خان (م) جو بلدیہ راولاکوٹ کے چئیرمین بھی رہے ان کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ اس کے علاوہ والد بھی چونکہ سیاسیات کے پروفیسر رہے تو ان سے بھی چیزیں سیکھنے کو ملیں لیکن عملی سیاست میں سردار خالد ابراہیم خان (م) سے متاثر ہوا ہوں۔ انھی سے سیاسی تربیت بھی حاصل کی اور انھی کی نظریاتی سیاست پر کاربند بھی ہوں۔ 

سوال: سیاست میں آپ سردار خالد ابراہیم خان(م) سے متاثر ہیں۔ وجہ؟ 
جواب: وہ گفتار کے نہیں بلکہ کردار کے غازی تھے۔ بانئ آزاد کشمیر سردار محمد ابراہیم خان کے فرزند ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی کوئی مراعات نہیں لیں اور خود بھی پانچ مرتبہ آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبر رہے لیکن جب فوت ہوئے تو بینک سے 6 ہزار کی رقم نکلی۔ وہ ورثہ میں سیاسی رواداری، اصول پسندی اور اپنا اجلا کردار چھوڑ کر گے۔ ہمیشہ ریاستی وقار کی سر بلندی پر یقین رکھا اور پاکستان سے بڑھ کر پاکستانی ہونے کا عملی ثبوت بھی دیا۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کے حقوق اور آزاد کشمیر کے تشخص کی خاطر دو دفعہ ریاستی اسمبلی سے استعفے بھی دیا ۔ غرضیکہ سردار خالد ابراہیم خان نے سیاست کے کربلا کا اکیلا حسین کا کردار ادا کیا جس نے مجھ سمیت ہزاروں نوجوانوں کو متاثر کیا ہے۔ 

سوال: کیا کبھی مسلہ کشمیر حل ہو گا اور اس کا حل آپ کے نزدیک کیا ہے؟  
جواب: کشمیر کی تحریک ایک جمہوری تحریک ہے اور دنیا میں جمہوری تحریکیں کامیاب ہونے میں وقت لیتی ہیں لیکن ان کو کامیاب ہونے سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ہے جن کے مطابق کشمیریوں کوحق خود ارادیت ملنا ہے ۔ اس کے علاوہ اگر کوئی حل نکالنے کی کوشش کی گئ تو وہ نہ کشمیری تسلیم کریں گے اور نہ ہی وہ دیر پا ہو گا۔ 

سوال: آپ کے خیال میں ہندوستان کشمیر پر رائے شماری کے لئے کیونکر تیار ہو گا؟ 
جواب: بظاہر ابھی یہ نا ممکن لگ رہا ہے تاہم جو بین الاقوامی حالات بنتے جا رہے ہیں اور خود جس طرح ہندوستان جس راہ پر چل رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ایک وقت میں وہ مجبور ہو گا کہ اسے کشمیر سمیت دیگر ریاستوں و اقلیتوں کے حقوق بھی دینا پڑیں گے۔ 

سوال: پاکستان کے مسائل کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟ 
جواب : پاکستان قیادت کے حوالے سے بد قسمت رہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے بعد قیادت کا فقدان رہا ہے تاہم جنرل ایوب خان، بینظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے مسائل کو سمجھنے اور انھیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم معاشرہ کی کردار سازی نہیں کر سکے جس میں سب سے زیادہ ذمہ داری ہمارے تعلیمی نظام کی ہے۔ 

سوال: آپ کا مستقبل میں انتخابی سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ؟
جواب : یہ قبل از وقت ہے تاہم میں سیاست میں ریاضت پر یقین رکھتا ہوں۔ اپنی پندرہ سالہ سیاسی محنت کے تسلسل میں میرٹ، اصول، اداروں کی مضبوطی، ریاستی تشخص سمیت کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد جاری رکھوں گا۔ 

 سوال: نوجوانوں کے لئے کوئی نصیحت؟ 
جواب: نوجوانوں سے میری یہ درخواست ہے کہ اپنے حقوق مانگنے سے پہلے  اپنی ذمہ داریوں پر بھی توجہ دیں۔ پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مبصر ڈاٹ کام ۔۔۔ کا کسی بھی خبر سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ علاوہ ازیں آپ بھی اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر [email protected] پر ای میل کر سکتے ہیں۔ ادارہ

اپنا تبصرہ دینے کے لیے نیچے فارم پر کریں
   
نام
ای میل
تبصرہ
  8538
کوڈ
 
   
متعلقہ خبریں
اکنامکس رپورٹنگ کی ورکشاپ کے دوسرے روز پہلے سیشن میں معروف صحافی مہتاب حیدر نے بجٹ کی تیاری اور اس میں فنانس ڈویژن اور ایف بی آر کے کردار اور بجٹ کی بنیادی خصوصیات ، قرضوں اور خسارے کے بارے میں تفصیلی پریزیٹیشن دی
پاکستان خوبصورت ملک اور عوام مہمان نواز ہیں۔ ایران اور پاکستان کے مثبت تشخص کو اجاگرکرنے میں صحافی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان کے مختصر دورے پر آئے ہوئے ایرانی ڈپٹی منسٹر برائے وزارت ثقاف
قونیا فار کشمیر کے زیر اہتمام ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کی صدارت قونیا فار کشمیر کے صدر پی ایچ ڈی اسکالر عمیر پرویز خان نے کی جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض عائشہ زہرہ نے ادا کئے۔
آن لائن ایجوکیشن سسٹم تقریباً پوری دنیا میں رائج ہے ۔پاکستان میں بھی دو بڑی یونیورسٹیاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اورورچوئل یونیورسٹی اس وقت ہزاروں اسٹوڈنٹ کو آن لائن ایجوکیشن فراہم کر رہی ہیں۔

مقبول ترین
سینیٹ میں سینیٹر رضا ربانی نے آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) بل 2023 پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اس کا مسودہ پھاڑ دیا اور کہا کہ یہ بل اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آرہا ہے، آج صبح ہی میں نے 8 ترامیم تجویز کیں ہیں۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات منفرد اور مضبوط ہیں جس نے تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی مضبوطی کو ثابت کیا ہے۔ پیپلزلبریشن آرمی اور پاکستان آرمی ایک دوسرے کے بھائی ہیں
وزیراعظم نے مردم شماری سے متعلق کہا کہ جو مردم شماری ہوئی ہے اسی پر انتخابات کرائے جائیں اور یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے ہماری نہیں کیوں کہ ہماری مدت 12 اگست کو پوری ہوجائے گی
قومی اسمبلی نے سیکریٹ ایکٹ 1923ء میں ترامیم کا بل منظور کرلیا جس میں زمانہ جنگ کے ساتھ زمانہ امن کو بھی شامل کیا جاسکے گا، حکومت کو حالت امن میں بھی کسی بھی جگہ، علاقے، بری یا بحری راستے کو ممنوعہ قرار دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔

پاکستان
 
آر ایس ایس
ہمارے پارٹنر
ضرور پڑھیں
ریڈرز سروس
شعر و ادب
مقامی خبریں
آڈیو
شہر شہر کی خبریں