Saturday, 18 October, 2025
مولانا فضل الرحمان: سیاست اور تدبر کا استعارہ

مولانا فضل الرحمان: سیاست اور تدبر کا استعارہ
تحریر: محمد فخرالاسلام (فخر کاکاخیل)

 

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے بہت کم رہنما ملتے ہیں جنہوں نے مذہب، سیاست اور اصولوں کے درمیان ایک ایسا نازک توازن قائم رکھا ہو جسے وقت نے بھی سراہا ہو۔ مولانا فضل الرحمان ان چند شخصیات میں شامل ہیں جو نہ صرف ایک دینی رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ایک زیرک، بااصول اور بالغ نظر سیاستدان کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔

مولانا کی سیاست محض جذبات پر مبنی نعرہ بازی نہیں، بلکہ حکمت، تدبر اور سیاسی فہم کی ایک زندہ مثال ہے۔ وہ ایک ایسا قائد ہیں جو نہ صرف سیاسی میدان میں ہر رخ سے آگاہ رہتے ہیں بلکہ بیک وقت مخالفین اور اتحادیوں سے سیاسی کھیل کھیلنے کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔ وہ جہاں مذہبی اجتماعات میں علمی گہرائی کے ساتھ خطاب کرتے ہیں، وہیں سیاسی محفلوں میں مدلل اور نپی تلی گفتگو کے ذریعے سنجیدہ طبقات کو متاثر کرتے ہیں۔ یہی وہ وقار ہے جس نے انہیں صرف مذہبی حلقوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ قومی سطح کے سیاستدانوں میں ایک معتبر آواز بنا دیا۔

ان کی قیادت کی اصل جھلک اس وقت سامنے آئی جب انہوں نے مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کو یکجا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کی تشکیل اور قیادت اس حقیقت کی غماز ہے کہ مولانا حالات کا ادراک اور مستقبل کی سمت طے کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان کی یہی بصیرت ہے جو ان کے مخالفین کو بھی اکثر ان کی سیاسی چالوں کا معترف بناتی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف ان کا جرات مندانہ اور غیر مبہم مؤقف پاکستان کی سیاست میں ایک اصولی باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ 2005 سے 2014 کے دوران، جب دہشت گردی نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، مولانا فضل الرحمان نے نہ صرف شدت پسندانہ رویے کی مخالفت کی بلکہ ایسے گروہوں کو اسلام دشمن قرار دے کر واضح لائن کھینچی۔ اس کی پاداش میں وہ خود کئی بار حملوں کا نشانہ بنے، مگر ان کے قدم کبھی نہیں ڈگمگائے۔

انتخابی سیاست میں اگرچہ ان کی جماعت کو محدود کامیابیاں ملتی رہی ہیں، لیکن مولانا نے ہمیشہ سیاسی وزن اور مؤثر حکمت عملی کے ذریعے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا۔ چاہے اپوزیشن ہو یا حکومت، وہ ہر بار اپنے موقف پر ثابت قدم رہے۔

فلسطین کے مسئلے پر مولانا کی مسلسل آواز، عالمی سیاست پر ان کی گرفت اور مسلم امہ کے مسائل پر ان کی فہم و فراست، انہیں عالمی سطح پر بھی ایک مؤثر مذہبی و سیاسی رہنما کے طور پر نمایاں کرتی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کی سیاست کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی بجائے بات چیت، مفاہمت اور آئینی دائرے میں رہ کر معاملات حل کرنے کو ترجیح دی۔ جب دوسرے سیاستدان ریاستی اداروں پر تنقید میں حد سے گزر جاتے تھے، مولانا ان کے لہجے کو اعتدال میں لانے کی کوشش کرتے رہے۔

ان کا عوامی رابطہ، خصوصاً مذہبی طبقے سے بے مثال ہے۔ ان کی ایک پکار پر مدارس کے طلباء اور کارکنان لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ یہ قیادت کا وہ رنگ ہے جو محض سیاسی نعروں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ برسوں کی خدمت، تربیت اور فکری رفاقت کا نتیجہ ہوتا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نہ صرف ایک سیاستدان ہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک فکر اور ایک تحریک کا نام ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ مذہب اور سیاست کو جدا نہیں کیا جا سکتا، بس اسے تدبر، توازن اور اصولوں کے ساتھ برتا جائے تو دونوں میدان سنور سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: مبصر ڈاٹ کام ۔۔۔ کا کالم نگار، بلاگر یا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے کالم / مضمون یا اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر اور مختصر تعارف کے ساتھ info@mubassir.com پر ای میل کریں۔ ادارہ

مولانا فضل الرحمان: سیاست اور تدبر کا استعارہ
محمد فخرالاسلام (فخر کاکاخیل)
اپنا تبصرہ دینے کے لیے نیچے فارم پر کریں
   
نام
ای میل
تبصرہ
  97485
کوڈ
 
   
مقبول ترین
پاکستانی آرمی چیف سے وائٹ ہاؤس میں اہم ملاقات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات اعزاز ہے، ان کا شکریہ کہ وہ جنگ کی طرف نہیں گئے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران کو دو ہفتے قبل بات کرنی چاہیئے تھی، اب بہت تاخیر ہوچکی ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق میڈیا سے گفتگو میں امریکی صدر نے واضح کیا ک ایران کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کو سرنڈر کرنے کے انتباہ کو مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایران کبھی سرنڈر نہیں کرے گا۔
ایران نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب اور حیفہ شہر پر چوتھی بار بیلسٹک میزائل اور ڈرون داغے، جس کے نتیجے میں اسرائیل میں سائرن بجنے لگے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق، حیفہ کے رمات ڈیوٹ ایئر بیس کو نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان
 
آر ایس ایس
ہمارے پارٹنر
ضرور پڑھیں
ریڈرز سروس
شعر و ادب
مقامی خبریں
آڈیو
شہر شہر کی خبریں